یہی ریل گاڑی بہت دِن کے بچھڑے ہوؤں کو ملاتی بھی ہے چپ رہو

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 124
سنو، اِتنی اَفسردہ کیوں ہو، اگر آج ہم کو چھڑاتی بھی ہے چپ رہو
یہی ریل گاڑی بہت دِن کے بچھڑے ہوؤں کو ملاتی بھی ہے چپ رہو
سبھی واقعات اور کردار اِس طرح کی داستانوں میں فرضی سہی
مگر عام سی اِس کہانی میں شاید کوئی بات ذاتی بھی ہے چپ رہو
بچھڑتے ہوئے موسموں کی قطاروں کو آواز دینے سے کیا فائدہ
کہ آتی ہوئی رُت، پرندے بہت اپنے ہمراہ لاتی بھی ہے چپ رہو
کسی شام کو پھر سنیں گے یہی منتظر کان، مانوُس قدموں کی چاپ
سڑک صرف بستی سے باہر ہی جاتی نہیں گھر تک آتی بھی ہے چپ رہو
خفا ہو کے تم سے جدا ہونے والے، اَچانک کہیں پھر ملیں گے کبھی
بہت کچھ یہاں اِختیاری سہی کچھ مگر حادثاتی بھی ہے چپ رہو
عرفان صدیقی

تبصرہ کریں