جشن ہے صبح کہ پیکار ہے میں کیا جانوں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 135
شہر کیوں رات میں بیدار ہے میں کیا جانوں
جشن ہے صبح کہ پیکار ہے میں کیا جانوں
ایک قطرہ بھی مرے کوزۂ خالی میں نہیں
ہر طرف ابرِ گہر بار ہے میں کیا جانوں
عاشقوں کے سرِ تسلیم کو تسلیم سے کام
اب یہ ابرو ہے کہ تلوار ہے میں کیا جانوں
صید کرتا ہے کسی اور کی مرضی سے مجھے
خود بھی صیاد گرفتار ہے میں کیا جانوں
میں تو اک درد کا سرمایہ لیے بیٹھا ہوں
یہ مری جان کا آزار ہے میں کیا جانوں
عرفان صدیقی

تبصرہ کریں