آخر شب کبھی آغاز کہانی کا نہ ہو

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 122
دل کا جو حال ہوا دشمن جانی کا نہ ہو
آخر شب کبھی آغاز کہانی کا نہ ہو
لوگ کیا جانیں کہ گزرے ہوئے موسم کیا تھے
جب قبا پر کوئی پیوند نشانی کا نہ ہو
ہم کہاں قید میں رہ سکتے تھے لیکن ترا ہاتھ
ہے وہ زنجیر کہ احساس گرانی کا نہ ہو
مسکراتا ہوں تو اکثر یہ خیال آتا ہے
آنکھ میں نم ابھی برسے ہوئے پانی کا نہ ہو
عرض احوال پہ دنیا مرا منہ دیکھتی ہے
جیسے رشتہ کوئی الفاظ و معانی کا نہ ہو
اور کچھ دیر ابھی سیر سر ساحل کر لیں
جب تلک حکم سفینے کو روانی کا نہ ہو
عرفان صدیقی

تبصرہ کریں