عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 101
عجب نہیں وہ سمجھ لے یہ استعارۂ شام
کہ آج دیر سے نکلا مرا ستارۂ شام
یہ کون میرے بدن میں طلوع ہونے لگا
ابھی لہو کو ملا بھی نہیں اشارۂ شام
چھپا نظر سے جو میرا ہلالِ ماہِ وصال
اتر گیا مرے دل میں سیاہ پارۂ شام
سمٹتی دھوپ ترے روپ کی سہیلی تھی
پنھا گئی ترے کانوں میں گوشوارۂ شام
ہر آفتاب کو آخر غروب ہونا ہے
سو ہم بھی ڈوب رہے ہیں سرِ کنارۂ شام
عرفان صدیقی