عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 110
قرض دَم توڑتے جذبوں کا اُتارو یارو
لفظ برچھی ہے اَگر تاک کے مارو یارو
دُور ہی دُور سے آواز نہ دے کر رہ جاؤ
بڑھتے ہاتھوں سے بھی یاروں کو پکارو، یارو
اُس ستارے سے اُدھر بھی بہت آبادی ہے
اَپنے باہر بھی ذرا وقت گزارو، یارو
سروِ قامت نہ سہی، سنگِ ملامت ہی سہی
سر ملا ہے تو کسی چیز پہ وارو، یارو
لوگ اِتنے ہی وفادار ہیں جتنے تم ہو
تم نہ جیتو کبھی یہ کھیل، نہ ہارو یارو
عرفان صدیقی