عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 113
موج خوں سوچ میں ہے پار اُتارے کس کو
شہر کا شہر ہی مقتول ہے مارے کس کو
اپنی ہی تیزئ شمشیر سے شکوہ ہے اُسے
کس کو زنجیر کرے، دار پہ وارے کس کو
ہر طرف کج کلہاں ہدیہ سر چاہتے ہیں
دست بے مایہ یہاں نذر گزارے کس کو
کوئی بستی سے نکلتا نہیں نصرت کے لیے
گھر کسے یاد کرے دشت پکارے کس کو
دیدۂ گریہ طلب، پشت فرس خالی ہے
تو نے دیکھا تھا ابھی نہر کنارے کس کو
عرفان صدیقی