اب تک آیا بھی نہیں تھا ابھی پیمانۂ لب

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 83
اک ہوا آئی کہ برہم ہوا مے خانۂ لب
اب تک آیا بھی نہیں تھا ابھی پیمانۂ لب
رات کی بات کوئی اس کے سوا یاد نہیں
قصۂ شب میں اگر سچ ہے تو افسانۂ لب
جسم سے روح تلک راہ نوردی کے لیے
ہو عنایت مرے ہونٹوں کو بھی پروانۂ لب
کاسۂ لب میں کہاں ڈھونڈ رہی ہو اس کو
ہم نے آنکھوں میں چھپا رکھا ہے دردانۂ لب
جنبشِ لب ہو تو نقدِ دل و جاں دیتے ہیں
ہم نئے باج گذاروں میں ہیں سلطانۂ لب
کچھ نہ کچھ حرفِ عنایت کا صلہ دیں تم کو
اذن ہوجائے تو حاضر کریں نذرانۂ لب
وہ تو یہ کہیے کہ اک نام سخن میں آیا
پھول کھلتے ہی کہاں تھے سرِ ویرانۂ لب
عرفان صدیقی

تبصرہ کریں