عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 65
اس سے بچھڑ کے بابِ ہنر بند کر دیا
ہم جس میں جی رہے تھے وہ گھر بند کر دیا
شاید خبر نہیں ہے غزالانِ شہر کو
اب ہم نے جنگلوں کا سفر بند کر دیا
اپنے لہو کے شور سے تنگ آچکا ہوں میں
کس نے اسے بدن میں نظر بند کر دیا
اب ڈھونڈ اور قدرشناسانِ رنگ و بو
ہم نے یہ کام اے گلِ تر بند کر دیا
اک اسمِ جاں پہ ڈال کے خاکِ فرامشی
اندھے صدف میں ہم نے گہر بند کر دیا
عرفان صدیقی