عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 47
خرد کے پاس فرسوُدہ دلیلوں کے سوا کیا تھا
پُرانے شہر میں ٹوٹی فصیلوں کے سوا کیا تھا
ہوا رَستے کی، منظر موسموں کے، سایہ پیڑوں کا
سفر کا ماحصل بیکار میلوں کے سوا کیا تھا
تو وہ شب بھر کی رَونق چند خیموں کی بدولت تھی
اَب اِس میدان میں سنسان ٹیلوں کے سوا کیا تھا
پرندوں کی قطاریں اُڑ نہیں جاتیں تو کیا کرتیں
ہماری بستیوں میں خشک جھیلوں کے سوا کیا تھا
تعجب کیا ہے وعدے ہی اگر حصے میں آئے ہیں
مری کوشش کے ہاتھوں میں وسیلوں کے سوا کیا تھا
عرفان صدیقی