عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 33
اب اور کوئی منزل دشوار سوچئے
جس سمت جا رہے تھے اُدھر کچھ نہیں بچا
سب کاروبار عرض تمنا فضول ہے
دل میں لہو زباں میں اثر کچھ نہیں بچا
یہ کون چیختا ہے اگر مر چکا ہوں میں
یہ کیا تڑپ رہا ہے اگر کچھ نہیں بچا
عرفان صدیقی