عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 48
اپنے آنگن ہی میں تھا، راہ گزر میں کیا تھا
ایسا تنہا تھا میں باہر بھی کہ گھر میں کیا تھا
سبز پتوں نے بہت راز چھپا رکھے تھے
رُت جو بدلی تو یہ جانا کہ شجر میں کیا تھا
تھا کمیں گاہ میں سنّاٹے کا عالم، لیکن
اِک نیا رنگ یہ ٹوٹے ہوئے پَر میں کیا تھا
تم جو کچھ چاہو وہ تاریخ میں تحریر کرو
یہ تو نیزہ ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا تھا
اور کیا دیکھتی دُنیا ترے چہرے کے سوا
کم سے کم رَنگ تھا سُرخی میں، خبر میں کیا تھا
تم یہ دیکھو کہ فقط خاک ہے پیراہن پر
یہ نہ پوچھو کہ مرے رختِ سفر میں کیا تھا
تم نہ ہوتے تو سمجھتی تمہیں دُنیا عرفانؔ
فائدہ عرضِ ہنر میں تھا، ہنر میں کیا تھا
عرفان صدیقی