کیوں آئے ہو

کیوں آئے ہو

بجھتے ہوئے تاروں کی

چھاؤں میں دھیرے دھیرے

گیت سناتے

خواب جگاتے

لفظوں سے تصویر بناتے

ابھی پرانے درد کا ماتم بپا ہے

دِل میں

شور بہت ہے

جان بھی الجھی ہے

کچھ منظر پگھلانے میں

جیون کا بوسیدہ ریشم

سلجھانے میں

پچھلی یاد بھلانے میں

کیوں آئے ہو

نینوں میں تاروں کو سجائے

پھول اُٹھائے

من دہکائے

وقت کہاں باقی ہے

چاند کے بجھنے میں،

ڈھل جانے میں

خواب ڈھونڈنے جانا پڑے گا

ذہن کے مردہ خانے میں …

گلناز کوثر

تبصرہ کریں