چھوڑو کیا رکھا ہے … اب یہ چھوٹی چھوٹی
چبھنے والی … نوکیلی سی باتیں
تم کیا ڈھونڈ رہے ہو
نہیں یہاں اب کچھ بھی نہیں ہے
سچ کہتے ہو درد بڑا تھا
لیکن اب تو کچھ بھی نہیں ہے
آخری منظر کیا دیکھا تھا
اندھی رُت اور گہرے سائے
ارے ذرا نرمی سے
نازک پھول سا لمحہ
کیا ہے جو اَب شاخ سے ٹوٹ کے گرنے لگا ہے
پھول تو پھول ہے … لیکن دل کچھ بھول رہا ہے
پلکوں کے پردوں کے پیچھے … کیا ہے … کیا ہے
آہ … یہاں اب کچھ بھی نہیں ہے
تم جو کل آتے تو … لیکن
سچ کہتے ہو
خاک اُڑاتے کمرے میں رکھا بھی کیا ہے
یونہی خالی بیٹھے بیٹھے دیر ہوئی ہے
دیکھو سورج ڈھلنے لگا ہے
کہاں چلو گے
شہر میں چاروں جانب سورج ڈھلنے لگا ہے
لیکن تم کیا دیکھ رہے ہو
دیر ہوئی ہے
میرے پتھر قدموں کے نیچے یہ دھرتی
رُکی ہوئی ہے
ہاں پر تم کہہ کر تو دیکھو
لیکن چھوڑو … کیا رکھا ہے
بس تم ہنستی کھیلتی ، چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے رہو گے
سورج ڈھلتے ڈھلتے آخر ڈھل جائے گا
اور پرے دو پیڑ ہیولے بن جائیں گے …