Earth has not anything to show more fair:
Dull would he be of soul who could pass by
A sight so touching in its majesty:
This City now doth، like a garment، wear
The beauty of the morning؛ silent، bare،
Ships، towers، domes، theatres، and temples lie
Open unto the fields، and to the sky؛
All bright and glittering in the smokeless air۔
Never did the sun more beautifully steep
In his first splendour، valley، rock، or hill؛
Ne’er saw I، never felt، a calm so deep!
The river glideth at his own sweet will:
Dear God! The very houses seem asleep؛
And all that mighty heart is lying still!
پُل پر سے …
اس سے سندر پَل دھرتی کے
جیون میں کب آیا ہو گا
بھور سمے کی اُجلی چادر
اوڑھ کے شہر تو چُپ بیٹھا ہے
کوئی اِس پل میں اُترے بِن
دھرتی سے اب کیسے گزرے
گم صُم اونچے مندر،
گول سے گنبد
اور چمکیلے منبر
سجی ہوئی تماشا گاہیں
ساگر کے سینے پر
ٹھہرے ہوئے سفینے
کرنوں کے جھرنے کے نیچے
آنکھیں موندے
گیان دھیان میں کھوئے ہوئے ہیں
ہولے ہولے ہوا کی کوری باہیں
جن کو سہلاتی ہیں
اور جھرنے کی شیتل بوندیں
کب یوں پربت ، ٹیلوں اور وادی کے تن پر
سَر سَر کرتی اتری ہوں گی
دل میرا کب اس سے پہلے
ایسے شانت سمے کو چھو کر
گزرا ہو گا
دریا من مانی موجوں کے
دھیمے سُروں میں
کھویا ہوا ہے
شہر کا گیانی من
اِک مدھم سناٹے میں
سویا ہوا ہے …