لہو سے بھری اس سڑک پر

خدایا لہو سے بھری اس سڑک پر

مرا دل مری پہلی پہچان کو ڈھونڈتا ہے

لہو سے بھری اس سڑک پر

خدایا لہو سے بھری اس سڑک پر

تڑپتی، بلکتی ہوئی میری فریاد

کٹتے ، سسکتے ہوئے دل سے اُٹھتی صدائیں

مری زخمی چیخیں

کوئی آج سنتا نہیں ہے

مرے ساتھ دم توڑتی میری معصوم خواہش کی

بجھتی نگاہوں میں خوابوں کی، رنگوں کی آواز

سنتا نہیں ہے کوئی آج لیکن

کہیں وقت کے اگلے اندھے پڑاؤ پہ

اِس جلتی دھرتی کی راکھ

ان فضاؤں میں اُڑنے لگے گی

کسی تُند ریلے کے

سرکش بہاؤ میں سب

ٹوٹ کر بہتا ہو گا

تو لہروں ، ہواؤں میں میری

صدا بھی ملے گی …

گلناز کوثر

تبصرہ کریں