عافیت

اسی میں عافیت ہے ہم

صبح سے شام تک پتلے ورق

ان پتلیوں میں گاڑتے جائیں

اُچٹتی کوری تحریریں

ادق حرفوں کو دہرائیں

سویرے سے ہی اپنے خالی چہرے پر

کسی بھی تمتماتے جوش کو کس کے چڑھائیں

اور لکڑی سے بنے تختے کے نیچے ٹانگیں جوڑیں

سر جھکائیں

اجنبی بے صوت سی دنیا میں کھو جائیں

اسی میں عافیت ہے جو وہ کہتے ہیں

ہم اپنے آپ کی جانب

کبھی بھی لوٹ نہ پائیں …

گلناز کوثر

تبصرہ کریں