شام

سرخ سفینہ ڈوب گیا ہے

دھیرے دھیرے

دور اُفق پر

سرخ سفینہ ڈوب گیا ہے

نارنجی بل کھاتی لہریں

کب سے ساکت پیڑوں پر

دم توڑ چکی ہیں

پنچھی کب کے لوٹ گئے ہیں

گہرے نیلے مرغولوں نے

سرد فضا کو گھیر لیا ہے

تنہائی کا گم صم سایا

سناٹے میں گونج رہا ہے

سینے میں اِک پیاس کا صحرا

جاگ اُٹھا ہے

دیر سے پچھلی یاد کے جھونکے

دل کی خالی دِیواروں کو

چھید رہے ہیں

سانس کا ریشم الجھ گیا ہے

اور کسی بے چین گھڑی نے

رات کا رستہ روک لیا ہے

بنجر آنکھ میں شام کا منظر

ٹھہر گیا ہے …

گلناز کوثر

تبصرہ کریں