سنبل اُجلے شانوں والی کومل تتلی
پیڑوں کی شاخوں سے ہاتھ چھڑا کے یوں نکلی ہے جیسے
برف کے گالے
رات کی خوابیدہ پلکوں پر
بے آواز اُتر آتے ہیں
جھونکوں کے رتھ پر سے دنیا
کیسی سندر دِکھتی ہے
کھیتوں کے یہ ہرے سمندر
شیتل جھرنے
کھَن کھَن کرتے پیتل کی چمکیلی
گاگر جیسی دھرتی
پر دیکھو یہ جگمگ سونے جیسی دھرتی
مٹی کے بے صورت لَوندوں
خاک کے بے مایہ تودوں سے
اٹی پڑی ہے
سنبل
اُجلے شانوں والی کومل تتلی
کل تک جو آوارہ جھونکوں کی باہوں میں
ڈول رہی تھی
اب اس سڑک کنارے خاک سے اٹی پڑی ہے
سنبل ریشم کی شہزادی
میرے دل میں
دو کومل لچکیلے ہاتھوں
کا اِک لمس جگا جاتی ہے
پر یہ گدلے ، بے مایہ، بے صورت لَوندے
پر یہ میرے تن کی خاک اُڑاتی دھرتی …
گلناز کوثر