یہ اسرارِ نیاز و ناز تم جانو یا وہ جانے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 564
زمیں و آسماں کے راز تم جانو یا وہ جانے
یہ اسرارِ نیاز و ناز تم جانو یا وہ جانے
ہمارا کام ہے آقا فقط جلوئوں میں کھو جانا
چھیڑا کیوں زندگی کا ساز تم جانو یا وہ جانے
تکلم اب خموشی کا گریباں گیر کب ہو گا
جہاں ہے گوش بر آواز تم جانو یا وہ جانے
بدن کو بعد لیکن ہر نفس معراج کا حامل
فراق و وصل کے انداز تم جانو یا وہ جانے
ضمیرِکن فکاں سے ایسے عقدے حل نہیں ہوتے
خود اپنی قوتِ پرواز تم جانو یا وہ جانے
وصالِ نور کاقصہ ہم اہل طور کیا جانیں
حدِ قوسین کا اعجاز تم جانو یا وہ جانے
منصور آفاق

تبصرہ کریں