منصور آفاق ۔ غزل نمبر 245
یہ جو پندار کے پڑے ہیں سانپ
یہ ابھی جسم سے جھڑے ہیں سانپ
کیا خزانہ تلاش کرتے ہو
اس کنویں میں بڑے بڑے ہیں سانپ
ہر قدم پر خدا کی بستی میں
مسئلوں کی طرح کھڑے ہیں سانپ
کم ہوئی کیا مٹھاس پانی کی
کتنے دریاؤں کو لڑے ہیں سانپ
اب بھی ڈرتا ہے آدمی ان سے
وہ جو تاریخ میں گڑے ہیں سانپ
ایک فوسل کی شکل میں منصور
کچھ مزاروں پہ بھی جڑے ہیں سانپ
منصور آفاق