منصور آفاق ۔ غزل نمبر 435
آشنا سا لگتا ہے اپنی پُر خواب چاپ سے کوئی
ہے مرے تعاقب میں ، نیند کے بس سٹاپ سے کوئی
موسمِ جدائی کی تنگ تھا زرد سی طوالت سے
رُت خرید لایا ہے وصل کی، لمس شاپ سے کوئی
قوس قوس آوازیں دور تک دائرے بناتی تھیں
لکھ رہا تھا کمرے میں گیت سا کیا الاپ سے کوئی
رقص کے الاؤ میں ڈوب کر پاؤں سے کلائی تک
جل اٹھا تھا ڈھولک کی نرم سی تیز تھاپ سے کوئی
سردیوں کی برفانی صبح میں گرم گرم سے بوسے
پھینکتا تھا ہونٹوں کی برف سی سرد بھاپ سے کوئی
جو کہیں نہیں موجود، روح کے آس پاس میں منصور
پوچھتا رہا اس کا، دیر تک اپنے آپ سے کوئی
منصور آفاق