ہر مرد گفتگو میں تلخی پہن کے نکلا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 43
کیسا یہ ’’ گے ادب ‘‘ کا اِفتی مباحثہ تھا
ہر مرد گفتگو میں تلخی پہن کے نکلا
لندن کے اک کلب سے بلی کی کج روی پر
ساقی کے ساتھ میں بھی وسکی پہن کے نکلا
تم جس کو دیکھتے ہو کھلتے ہوئے ، وہ چہرہ
افلاک سے نمو کی مٹی پہن کے نکلا
کہتے ہیں چشم و لب کی بارش میں وسوسے ہیں
منصور دوپہر میں چھتری پہن کے نکلا
منصور آفاق

تبصرہ کریں