منصور آفاق ۔ غزل نمبر 634
ستم گرو نہ کہو یہ جہاد جاری ہے
گلی گلی ہیں دھماکے، فساد جاری ہے
مری بہشت کو دوزخ بنا رہے ہیں لوگ
بنامِ دین غضب کا عناد جاری ہے
کسی قیامتِ صغریٰ میں جی رہاہوں میں
حسیں دنوں پہ مگر اعتقاد جاری ہے
غزل کی آخری ہچکی اُدھرسنائی دے
مشاعروں کا ادھر انعقاد جاری ہے
نظر میں خواب تو برفیں جمی ہے جھیلوں میں
ہر ایک شے میں کوئی انجماد جاری ہے
وہ جس کے ہجرکی وحدت ملی مجھے منصور
اُس ایک حسنِ مکمل کی یاد جاری ہے
منصور آفاق