کیکر پہ لگا کرتے ہیں اخروٹ کہیں اور

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 163
یہ دشتِ مغیلاں ہے، ثمرکوٹ کہیں اور
کیکر پہ لگا کرتے ہیں اخروٹ کہیں اور
اک پھول نے اب ہاتھ مرا تھام رکھا ہے
سردائی بدن بھنگ کی جا گھوٹ کہیں اور
اس ہاتھ پہ تقسیم کی اشکال بنا دیں
اقرارِ محبت کا لکھا نوٹ کہیں اور
سایوں کے تعاقب میں یہی ہوتا ہے شاید
میں اور کہیں ، چاند بھری اوٹ کہیں اور
چلتے تھے پسینے کے مری جلد پہ قطرے
بم جیسے مرے پاؤں میں ریموٹ کہیں اور
ہے اپنے مراسم میں کوئی اور بھی شامل
ہم ٹھیک ہی سمجھے تھے کہ ہے کھوٹ کہیں اور
اِس شہر کی گلیوں میں دھڑکتے ہوئے دل ہیں
اے حاکمِ جاں ! رہتے ہیں روبوٹ کہیں اور
اِس شہرِ منافق کو بھی کوفہ نہ کہیں کیوں
وعدہ تھا کسی اور سے اور ووٹ کہیں اور
ڈستی ہے مرے خواب کو پروازوں کی آواز
تعمیر کیا جائے ایئرپورٹ کہیں اور
ٹوٹا مرا دل تھا، جھڑی آنکھوں میں لگی تھی
احساس کہیں اور تھا اور چوٹ کہیں اور
اڑتا تھا تعلق کی کسی تیز ہوا میں
ٹائی کہیں جاتی تھی مری، کوٹ کہیں اور
منصور آفاق

تبصرہ کریں