کیا تم نے اجالوں کا سفر بند کیا ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 606
مانا مرے سورج کو نظر بند کیا ہے
کیا تم نے اجالوں کا سفر بند کیا ہے
جسموں کیلئے تم نے اٹھائی ہیں فصیلیں
بتلاؤ کہ احساس کا در بند کیا ہے
ہر روز نکلتا ہے بڑی شان سے سورج
راتوں نے کہاں بابِ سحر بند کیا ہے
کمبخت چہکتے ہوئے رازوں کی امیں تھی
اس واسطے بوتل کو بھی سر بند کیا ہے
اب لوٹ کے جاتا نہیں یادوں کی گلی میں
گم گشتہ زمانوں میں گزر بند کیا ہے
اب خواب میں بھی کوئی کسی سے نہیں ملتا
اس عہد نے جذبوں کا سفر بند کیا ہے
کچھ دن تو درِ دل بھی مقفل کرو منصور
دروازہ روابط کا اگر بند کیا ہے
منصور آفاق

تبصرہ کریں