کہ مرنا تو ہے محبت میں مر گئے ہوتے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 526
کہا جو ہوتا تو جاں سے گزر گئے ہوتے
کہ مرنا تو ہے محبت میں مر گئے ہوتے
کسی شراب کدے نکل کے پچھلی رات
یہ چاہئے تھا ہمیں اپنے گھر گئے ہوتے
اکیلگی نے ہمیں اپنی جوڑ رکھا ہے
سمیٹ لیتا کوئی تو بکھر گئے ہوتے
تُو ایک بار برس پڑتا میری روہی پر
تو سارے پیاس کے تالاب بھر گئے ہوتے
ہمیں زمین نے رکھا گرفت میں منصور
جو پاؤں اٹھتے تو افلاک پر گئے ہوتے
منصور آفاق

تبصرہ کریں