کورٹ سمٹا جا رہا تھا اک ذرا سی بال میں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 306
کون ٹینس کھیلتی جاتی تھی وجد و حال میں
کورٹ سمٹا جا رہا تھا اک ذرا سی بال میں
جانے کس نے رات کا خاکہ اڑایا اس طرح
چاند کا پیوند ٹانکا اس کی کالی شال میں
ایک کوا پھڑ پھڑا کر جھاڑتا تھا اپنے پر
تھان لٹھے کے بچھے تھے دور تک چترال میں
لوگ مرتے جا رہے تھے ساحلوں کی آس پر
ناؤ آتی جا رہی تھی پانیوں کے جال میں
کوئی پتھر کوئی ٹہنی ہاتھ آتی ہی نہیں
گر رہا ہوں اپنے اندر کے کسی پاتال میں
جن گناہوں کی تمنا تنگ کرتی تھی مجھے
وہ بھی ہیں تحریر میرے نامہء اعمال میں
میں نے یہ منصور دیکھا اس سے مل لینے کے بعد
اپنی آنکھیں بچھ رہی تھیں اپنے استقبال میں
منصور آفاق

تبصرہ کریں