کوئی تو ہے جو ریاضت کا ثمر دیتا ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 598
کاسہ ء اجر کو امکان سے بھر دیتا ہے
کوئی تو ہے جو ریاضت کا ثمر دیتا ہے
خیر امکانِ تباہی سے تو انکار نہیں
عشق کی موج ہے آباد بھی کر دیتا ہے
اس سے کہنا کہ یہ دکھ قابلِ برداشت نہیں
وہ جو تکلیف میں پتھر کا جگر دیتا ہے
وہ جو کل ہاتھ پہ سر رکھ کے ادھر آیا تھا
وہ برا شخص سہی ساتھ مگر دیتا ہے
میں نے تقسیم کی منزل پہ اسے وصل کہا
ایک لمحہ جو مجھے میری خبر دیتا ہے
اس سے کہنا کہ مجھے روشنی ای میل کرے
اپنے جلووں سے جو مہتاب کو بھر دیتا ہے
عمر سوجاتی ہے ساحل کی طلب میں منصور
کیا وہ قطرے میں سمندر کا سفر دیتا ہے
منصور آفاق

تبصرہ کریں