منصور آفاق ۔ غزل نمبر 155
وہ خواب گاہِ عرش وہ باغِ جناں کی یاد
پھر مہرباں ہوئی کسی نا مہرباں کی یاد
آنکھوں میں کس کے عارض و لب کے چراغ ہیں
پھرتی ہے یہ خیال میں آخر کہاں کی یاد
پھر گونجنے لگی ہے مرے لاشعور میں
روزِ ازل سے پہلے کے کچھ رفتگاں کی یاد
میں آسماں نژاد زمیں پر مقیم ہوں
کچھ ہے یہاں کا درد تو کچھ ہے وہاں کی یاد
کوئی نہ تھا جہاں پہ مری ذات کے سوا
آئی سکوتِ شام سے اُس لا مکاں کی یاد
دیکھوں کہیں خلوص تو آتی ہے ذہن میں
پیچھے سے وار کرتے ہوئے دوستاں کی یاد
دریائے ٹیمز! اپنے کنارے سمیٹ لے
آئی ہے مجھ کو سندھ کے آبِ رواں کی یاد
منصور آ رہی ہے سرِ آئینہ مجھے
اِس شہرِ پُر فریب میں سادہ دلاں کی یاد
منصور آفاق