پڑا ملنگِ علی کے دلِ فراغ میں ہوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 287
جہاں ازل بھی ابد بھی ،اک ایسے باغ میں ہوں
پڑا ملنگِ علی کے دلِ فراغ میں ہوں
میں جاودانی کا پانی ، میں جرعہِ آبِ حیات
یہ اور بات کہ ٹوٹے ہوئے ایاغ میں ہوں
ستارہ ، قمقمہ ، جگنو ، دیا ہے میرا نام
میں کائناتِ سیہ کے ہر اک داغ میں ہوں
مری طرف بھی نظر کر ، مجھے بھی دیکھ کہ میں
ترے مزار کے جلتے ہوئے چراغ میں ہوں
اندھیرے خوف زدہ ہیں مری شہادت سے
کھٹکتا رہتا سدا رات کے دماغ میں ہوں
میں دوپہر کے تسلسل کا سوختہ منصور
چراغ لے کے کسی رات کے سراغ میں ہوں
منصور آفاق

تبصرہ کریں