منصور آفاق ۔ غزل نمبر 6
پار دریا کر رہی تھی سبز اونٹوں کی قطار
پانیوں پر گر رہا تھا گھنٹیوں کا آبشار
دور تک کالی سڑک تھی اور پگھلتی تارکول
چل رہی تھی ٹائروں کا دکھ پہن کر ایک کار
رات ہجراں کی، سلو موشن میں صدیوں پر محیط
دن جدائی کا کہیں ، جیسے ابد کا انتظار
کعبہء عشقِ محمد ابرہوں کی زد میں ہے
پھر ابابیلوں کا لشکر آسمانوں سے اتار
سندھ کی موجوں کے بوسے مضطرب ہیں دیر سے
کر رہا ہے تیرے نقشِ پا کا ساحل انتظار
دور تک منصور بستر سی وصال انگیز ریت
ایک گیلی رات،میں ،اور تھل کا حسنِ خوشگوار
منصور آفاق