پانیوں میں تیرتی شاداب کومل بیریاں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 268
یاد کی اک نہر پر وہسکی کی بوتل بیریاں
پانیوں میں تیرتی شاداب کومل بیریاں
دیکھتا ہوں دھوپ کی جلتی چتا کے آس پاس
سائباں ، دیوار ، چھتری، زلف، بادل ، بیریاں
ایک دھاگوں سے بھری تعویز در تعویز رات
گہرے پرآسیب سائے ، خوف سے شل بیریاں
اب تو ڈھیلے پھینکتے لڑکے سے کہہ دو ہنس پڑے
خود ہی تھل کی جھک گئی ہیں پھل سے بوجھل بیریاں
تیز ہو جائے ہوا تو شرٹ اپنی کھول دیں
گرمیوں کے سر پھرے موسم کی پاگل بیریاں
چاہتی ہیں کوئی پتھر مارنے والابھی ہو
اپنے جوبن پر جب آجاتی ہیں کومل بیریاں
جن کے آنچل میں گزار آئے بدن کی دو پہر
یاد ہیں وہ گاؤں کی سب شوخ چنچل بیریاں
منصور آفاق

تبصرہ کریں