وہ سنوارآیا بگاڑوں کو شہیدوں کا لہو

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 240
ملک کے ٹوٹے کواڑوں کو شہیدوں کا لہو
وہ سنوارآیا بگاڑوں کو شہیدوں کا لہو
موسمِ گل کی سہانی شام لاتا ہے یہی
دھوپ رُو کرتا ہے جاڑوں کو شہیدوں کا لہو
کرچکا ہے خوشنما تاریخ کے ہردور میں
موت کی پُر خار باڑوں کو شہیدوں کا لہو
دے چکا ہے زندگی کی دلربا آبادیاں
دشت کے کالے اجاڑوں کو شہیدوں کا لہو
کر چکا ہے ہمتوں سے سرفراز و جاوداں
آسماں آسا پہاڑوں کو شہیدوں کا لہو
دے چکا ہے روشنی ظلمات میں بکھری ہوئی
کتنی بارودی دراڑوں کو شہیدوں کا لہو
ہرقیامت خیز موسم میں رواں رکھتا رہا
زندگی کی کٹتی ناڑوں کو شہیدوں کا لہو
عمر بھر انجام تک منصور پہنچاتا رہا
ظلمتِ شب کے کراڑوں کو شہیدوں کا لہو
منصور آفاق

تبصرہ کریں