وہ جو بولتی تھی سرائیکی بھری اردوئیں نہیں آس پاس

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 185
وہی رنگ رنگ کی اجرکیں ، وہی خوشبوئیں نہیں آس پاس
وہ جو بولتی تھی سرائیکی بھری اردوئیں نہیں آس پاس
کہیں خشک سالی وصال کی کہیں آبِ لمس کا قحط ہے
وہ جو پیاس میری بجھاتے تھے وہی اب کنوئیں نہیں آس پاس
مرے دھوپ روپ دیار کے سبھی برف پوش مکان ہیں
وہ جو چمنیوں سے نکلتے تھے کبھی، وہ دھوئیں نہیں آس پاس
یہاں گرم ہاتھ کو پھیر مت، یہاں لمس لمس بکھیر مت
جو مچلتے تھے ترے قرب سے وہی اب روئیں نہیں آس پاس
سبھی شوخ و شنگ لباس ہیں کوئی لازوال بدن نہیں
جنہیں آنکھیں چومیں خیال میں جنہیں لب چھوئیں نہیں آس پاس
کوئی رات اجلی وصال کی کوئی گیت گاتی سی بالیاں
میرے سانس سے جو دہک اٹھیں وہی اب لویں نہیں آس پاس
منصور آفاق

تبصرہ کریں