میں جوانی بھول آیا ہوں کہیں پردیس میں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 308
باقی سب چیزیں تو رکھی ہیں اٹیچی کیس میں
میں جوانی بھول آیا ہوں کہیں پردیس میں
زندگی کی دوڑ ہے اور دوڑنا ہے عمر بھر
شرط گھوڑا جیت سکتا ہی نہیں ہے ریس میں
رقص کرتی لڑکیاں میوزک میں تیزی اور شراب
نیکیاں ملتی ہیں مجھ سے کیوں بدی کے بھیس میں
میں برہنہ گھومتا تھا ہجر کی فٹ پاتھ پر
رات جاڑے کی اکیلی سو گئی تھی کھیس میں
کیوں بدلتا جا رہا ہے روح کا جغرافیہ
کون سرحد پار سے آیا بدن کے دیس میں
منصور آفاق

تبصرہ کریں