طلسمِ شب ہے سحر تک بلائیں حاکم ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 371
دیارِ گل میں بھیانک بلائیں حاکم ہیں
طلسمِ شب ہے سحر تک بلائیں حاکم ہیں
سفید پوش ہیں سہمے ہوئے مکانوں میں
گلی میں پھرتی ہے کالک بلائیں حاکم ہیں
یہاں سے ہجرتیں کرنی ہیں خوش دماغوں نے
یہاں ہے موت کی ٹھنڈک بلائیں حاکم ہیں
یہ گفتگو سے سویرے طلوع کرتی ہیں
وطن پہ رات کی زیرک بلائیں حاکم ہیں
نکل پڑے ہیں ہزاروں سگانِ آدم خور
کھلے ہیں موت کے پھاٹک بلائیں حاکم ہیں
وہ ساری روشنیوں کی سہانی آوازیں
تھا اقتدار کا ناٹک بلائیں حاکم ہیں
جو طمطراق سے جالب کے گیت گاتی ہیں
وہ انقلاب کی گاہک بلائیں حاکم ہیں
کسی چراغ میں ہمت نہیں ہے جلنے کی
بڑا اندھیرا ہے بے شک بلائیں حاکم ہیں
سعودیہ سے ہواہے نزولِ پاک ان کا
چلو وطن میں مبارک بلائیں حاکم ہیں
خدا کے نام دھماکے نبیؐ کے نام فساد
بنامِ دین ہے بک بک بلائیں حاکم ہیں
یہ مال و زر کی پجاری ہیں وقت کی قارون
نہیں ہے مذہب و مسلک بلائیں حاکم ہیں
نظر نہ آئیں سہولت سے آنکھ کو منصور
لگا کے دیکھئے عینک بلائیں حاکم ہیں
منصور آفاق

تبصرہ کریں