منصور آفاق ۔ غزل نمبر 68
فراق و رابطہ کا احتمال ختم ہوا
طلب شکستہ کا آخر ملال ختم ہوا
وہ بجھ گئی ہے تمناجو آگ رکھتی تھی
وہ ہجر راکھ ہوا، وہ وصال ختم ہوا
کوئی بھی اپنے مقاصد میں پیش رفت نہیں
یونہی حیات کا اک اور سال ختم ہوا
ہم اس کی سمت چلے وہ کسی کی سمت چلا
سوال کرنے سے پہلے سوال ختم ہوا
چلی تو جھونک گئی دھول ساری آنکھوں میں
رکی ہوا تو چمن کا جمال ختم ہوا
بجھی ہوئی ہے انگیٹھی سیہ دسمبر میں
اے چوبِ سوختہ تیرا کمال ختم ہوا
کسی کے واسطے افلاک پستیاں منصور
بلندیوں پہ کسی کا زوال ختم ہوا
منصور آفاق