منصور آفاق ۔ غزل نمبر 100
ہوا تھی تیز مگر ، پُرسکوت پانی تھا
سرابِ ذات کا کیسا سموتھ پانی تھا
وہاں پہ آگ کو کیا سرخروئی ملنی تھی
جہاں حیات کا پہلا ثبوت پانی تھا
وہ تشنہ لب رہا دریا کے پاس آ کر بھی
مرے کنارے کا شاید اچھوت پانی تھا
کئی ہزار برس پہلے میرے پاؤں میں
بشکلِ برف زمیں پر حنوط پانی تھا
اکیلگی تھی جزیرے پہ اور ہوائیں تھیں
گرے ہوئے تھے کئی شہ بلوط ، پانی تھا
ہر اک خیال کے اس انجماد میں منصور
حدِ نگاہ کا بے شکل بھوت پانی تھا
منصور آفاق