منصور آفاق ۔ غزل نمبر 93
دل کو یارِ بے وفا کا درد تھا
راکھ کو یعنی ہوا کا درد تھا
موت کی ہچکی مسیحا بن گئی
رات کچھ اِس انتہا کا درد تھا
ننگے پاؤں تھی ہوا کی اونٹنی
ریت تھی اور نقشِ پا کا درد تھا
کائناتیں ٹوٹتی تھیں آنکھ میں
عرش تک ذہنِ رسا کا درد تھا
میں جسے سمجھا تھا وحشت ہجر کی
زخم پروردہ انا کا درد تھا
رات کی کالک افق پر تھوپ دی
مجھ کو سورج کی چتا کا درد تھا
منصور آفاق