دیکھا ہوا ہے میں نے تیرامنال روڈ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 254
بل کھاتے موڑ تیرے ، تیرا یہ مال روڈ
دیکھا ہوا ہے میں نے تیرامنال روڈ
وہ وجد و حال و مستی جانے کہاں گئے ہیں
خالی پڑا ہوا ہے کب سے دھمال روڈ
رہ جائے گی یہ پندرہ منٹ کی ڈرائیونگ
اے زندگی یہاں سے کوئی نکال روڈ
بارش برس رہی ہے آنکھوں کے آس پاس
سیلاب میں گھری ہے اپنی کنال روڈ
نکلے نفی کے شہر سے اثبات کی سڑک
جائے جو آسماں کو من کی قتال روڈ
ناراض موسموں سے آئی ہے کوئی کال
منصور ہو گئی ہے گھر کی بحال روڈ
منصور آفاق

تبصرہ کریں