خوف دونوں طرف ایک لمحے کی تا خیر کے ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 391
ایٹمی جنگ میں سوختہ خواب تسخیر کے ہیں
خوف دونوں طرف ایک لمحے کی تا خیر کے ہیں
وقت کی گیلری میں مکمل ہزاروں کی شکلیں
صرف ٹوٹے ہوئے خال و خد میری تصویر کے ہیں
شہر بمبار طیارے مسمار کرتے رہیں گے
شوق دنیا کو تازہ مکانوں کی تعمیر کے ہیں
ایک مقصد بھری زندگی وقت کی قید میں ہے
پاؤں پابند صدیوں سے منزل کی زنجیر کے ہیں
ایک آواز منصور کاغذ پہ پھیلی ہوئی ہے
میرے سناٹے میں شور خاموش تحریر کے ہیں
منصور آفاق

تبصرہ کریں