جہاں رہنا نہیں ہوتا وہاں پر گھر بناتے ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 384
یونہی ہم بستیوں کو خوبصورت تر بناتے ہیں
جہاں رہنا نہیں ہوتا وہاں پر گھر بناتے ہیں
بنا کر فرش سے بستر تلک ٹوٹی ہوئی چوڑی
گذشتہ رات کا تصویر میں منظر بناتے ہیں
لکھا ہے اس نے لکھ بھیجو شبِ ہجراں کی کیفیت
چلو ٹھہرے ہوئے دریا کو کاغذ پر بناتے ہیں
سمندر کے بدن جیسا ہے عورت کا تعلق بھی
لہو کی آبدوزوں کے سفر گوہر بناتے ہیں
مکمل تجربہ کرتے ہیں ہم اپنی تباہی کا
کسی آوارہ دوشیزہ کو اب دلبر بناتے ہیں
شرابوں نے دیا سچ بولنے کا حوصلہ منصور
غلط موسم مجھے کردار میں بہتر بناتے ہیں
منصور آفاق

تبصرہ کریں