منصور آفاق ۔ غزل نمبر 91
اک چراغِ معتبر میں لگ گیا تھا
تیر سورج کی نظر میں لگ گیا تھا
اس پہ بچپن میں کہانی کھل گئی تھی
دکھ کا پتھر اس کے سر میں لگ گیا تھا
وہ کہیں رہتی تھی تاروں کے نگر میں
سارا دن بس کے سفر میں لگ گیا تھا
پہلے لکھے تھے ستاروں کے قصیدے
پھر قلم کارِ سحر میں لگ گیا تھا
رفتہ رفتہ چھاؤں میٹھی ہو گئی تھی
شہد کا چشمہ شجر میں لگ گیا تھا
پچھلے دکھ منصور جندڑی سہہ گئی تھی
زخم اک تازہ جگر میں لگ گیا تھا
منصور آفاق