بڑے بڑے بریف کیس شانہء سروش پر پڑے رہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 642
مراسلے دیارِ غیب کے قلی کے دوش پر پڑے رہے
بڑے بڑے بریف کیس شانہء سروش پر پڑے رہے
پیانو پہ مچلتی انگلیوں کے بولتے سروں کی یاد میں
تمام عمر سمفنی کے ہاتھ چشم و گوش پر پڑے رہے
ہزار ہا کلائیاں بہار سے بھری رہیں ہری رہیں
نصیب زرد موسموں کے دستِ گل فروش پر پڑے رہے
برہنہ رقص میں تھی موت کی کوئی گھڑی ہزار شکر ہے
کہ سات پردے میرے دیدئہ شراب نوش پر پڑے رہے
اٹھا کے لے گئی خزاں تمام رنگ صحن سے حیات کے
کسی نے جو بنائے تھے وہ پھول میز پوش پر پڑے رہے
منصور آفاق

تبصرہ کریں