منصور آفاق ۔ غزل نمبر 566
وہ لپیٹ کر نکلی تولیے میں بال اپنے
بوند بوند بکھرے تھے جسم پر خیال اپنے
درد کے پرندوں کو آنکھ سے رہائی دی
آخرش وہ دن آیا رو پڑے ملال اپنے
یہ صدا سنائی دے کوئلے کی کانوں سے
زندگی کے چولھے میں جل رہے ہیں سال اپنے
دیکھ دستِ جانانہ ! کھلنے کی تمنا میں
جینز کے اٹیچی میں بند ہیں جمال اپنے
قتل تو ڈرامے کا ایکٹ تھا کوئی منصور
کس لیے لہو سے ہیں دونوں ہاتھ لال اپنے
منصور آفاق