اک ذہن تھا جو توپ کے گولوں سے بھرا تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 83
اک دل تھا مرا ، پیار کے بولوں سے بھرا تھا
اک ذہن تھا جو توپ کے گولوں سے بھرا تھا
کل رات جو کمرے کا بجھایا نہیں ہیٹر
اٹھا تو افق آگ کے شعلوں سے بھرا تھا
اک یاد تھی گزرے ہوئے معصوم دنوں کی
کمرہ کوئی گڑیا کے پٹولوں سے بھرا تھا
چھت ہی نہیں ٹوٹی تھی کسی کچے مکاں کی
چاول کا کوئی کھیت بھی اولوں سے بھرا تھا
بازوں کے تسلط میں فضائیں تھیں چمن کی
محفوظ تھا پنجرہ سو ممولوں سے بھرا تھا
منصور کی چیخیں تھیں کہ سینے میں دبی تھیں
کمرہ تھا کہ بجتے ہوئے ڈھولوں سے بھرا تھا
منصور آفاق

تبصرہ کریں