منصور آفاق ۔ غزل نمبر 428
اور اب تو میرے چہرے سے ابھر آتا ہے وہ
آئینہ میں دیکھتا ہوں اور نظر آتا ہے وہ
حالِ دل کہنے کو بارش کی ضرورت ہے مجھے
اور میرے گھر ہوا کے دوش پر آتا ہے وہ
رات بھر دل سے کوئی آواز آتی ہے مجھے
جسم کی دیوار سے کیسے گزر آتا ہے وہ
وقت کا احساس کھو جاتا تھا میری بزم میں
اپنے بازو پر گھڑی اب باندھ کر آتا ہے وہ
میں ہوا کی گفتگو لکھتا ہوں برگِ شام پر
جو کسی کو بھی نہیں آتا ہنر آتا ہے وہ
سر بریدوں کو تنک کر رات سورج نے کہا
اور جب شانوں پہ رکھ کر اپنا سر آتا ہے وہ
منصور آفاق