منصور آفاق ۔ غزل نمبر 110
پہلے سورج کو سرِ راہ گزر باندھ دیا
اور پھر شہر کے پاؤں میں سفر باندھ دیا
چند لکڑی کے کواڑوں کو لگا کر پہیے
وقت نے کار کے پیچھے مرا گھر باندھ دیا
وہ بھی آندھی کے مقابل میں اکیلا نہ رہے
میں نے خیمے کی طنابوں سے شجر باندھ دیا
میری پیشانی پہ انگارے لبوں کے رکھ کے
اپنے رومال سے اس نے مرا سر باندھ دیا
لفظ کو توڑتا تھا میری ریاضت کا ثمر
وسعتِ اجر تھی اتنی کہ اجر باندھ دیا
ایک تعویز جسے میں نے اتارا تھا ابھی
اس نے بازو پہ وہی بارِ دگر باندھ دیا
پھر وہ چڑھنے لگی تیزی سے بلندی کی طرف
پہلے رسہ کہیں تا حدِ نظر باندھ دیا
چلنے سے پہلے قیامت کے سفر پر منصور
آنکھ کی پوٹلی میں دیدۂ تر باندھ دیا
منصور آفاق