ادھورے گیت سے حاصل دوام کیا کرتے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 520
زمیں سے عرش پہ نازل کلام کیا کرتے
ادھورے گیت سے حاصل دوام کیا کرتے
اُدھر بلاوا تھا اُس کا کہ میں اکیلی ہوں
اِدھر ادھورے تھے دفتر کے کام کیا کرتے
ہر آسماں سے نیا آسماں دکھائی دے
جہاز عرش کا رستہ تمام کیا کرتے
ازل تھا میز پہ جن کی، ابد تھا جیب کے بیچ
حیات و موت کا وہ احترام کیا کرتے
ہوا نے رنگ بکھیرے نہ پھول نے خوشبو
ترے بغیر ادھوری تھی شام کیا کرتے
زمین ہوتی توہم بھی کہیں قدم رکھتے
مقام ہی نہ تھا کوئی، قیام کیا کرتے
ہم اپنی ذات کی سڑکوں کے گم شدہ منصور
وصال و فاصلہ کا اہتمام کیا کرتے
منصور آفاق

تبصرہ کریں