پرانے تماشائی کی شہادت

وہ مشتبہ ہے!مسیحا ہے! یا تغیّر کے

اصولِ امر و نہی کانقیب ہے شاید!

کریں گی فیصلہ اگلی عدالتیں آکر

وہ جو بھی ہے

اُسے اک سلطنت گرانے کو

بدن سے نکلی ہوئی روح کو اشارا ملا

ذرا نہ دیر لگی

بس انحراف کے دو حرف۔۔۔۔ اور اس کے بعد

زنِ ستارہ جبیں سے نکاح فسخ ہوا

ستون و سقف گرے بے نہاد قلعے کے

ہمارے ساتھ تماشائیوں میں شامل تھا

اِس انہدام کا سب سے قدیم ناظر بھی

زمیں کی آب و وہا کے نمو کا پروردہ

درختِ پا بستہ

آفتاب اقبال شمیم

تبصرہ کریں